ہر لڑکی کا رویہ اپنے ماں باپ کے گھر آنے کے بعد مختلف ہوا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’ن‘‘ وہ جب بھی اپنے والدین کے گھر آتی ہے کوئی کام نہیں کرتی۔ آرام کرتی رہتی ہے۔ اس کے خیال کے مطابق میکا ایسی جگہ نہیں ہے جہاں جاکر کام کیا جائے۔
آپ کی شادی ہوچکی‘ آپ اپنے سسرال میں رہتی ہیں اور جب فرصت ملتی ہے یا موقع ملتا ہے تو اپنےوالدین کے پاس بھی آجاتی ہیں اور ہر لڑکی کا رویہ اپنے ماں باپ کے گھر آنے کے بعد مختلف ہوا کرتا ہے۔ مثال کے طور پر ’’ن‘‘ وہ جب بھی اپنے والدین کے گھر آتی ہے کوئی کام نہیں کرتی۔ آرام کرتی رہتی ہے۔ اس کے خیال کے مطابق میکا ایسی جگہ نہیں ہے جہاں جاکر کام کیا جائے۔ وہ اسے آرام کرنے کی آئیڈیل جگہ سمجھتی ہے۔ لیکن ’’ن‘‘ ایک بنیادی بات بھول جاتی ہے کہ دنیا کے ہر رشتے کی بنیاد اور اس کا اظہار ایک خاص حد تک ہوا کرتا ہے۔ یعنی ہر رشتے کے لیے برداشت کی ایک حد ہوا کرتی ہےاور یہ معاملہ دو طرفہ افہام و تفہیم کا ہوا کرتا ہے اور اس کی خوشگواری اس وقت تک برقرار رہتی ہےجب تک دونوں ایک دوسرے کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے معاملات میں دلچسپی لیں۔ ’’ن‘‘ کو اب یہ بھی سوچنا چاہیے کہ اس کے میکے میں اس کے جانے کے بعد ایک اور فرد کا اضافہ ہوگیا ہے یعنی اس کے بھائی کی بیوی۔ ’’ن‘‘ کو اب یہ سوچنا چاہیے کہ اس کی بھابھی بھی بالآخر ایک انسان ہی ہے۔ ایک تو وہ گھر کے کام کرتی ہی رہتی ہے پھر ’’ن‘‘ کے آجانے کے بعد اس کا اور اس کے بچوں کے کام کا بوجھ اور بھی بڑھ جاتا ہے۔ کیونکہ ’’ن‘‘ اپنے حصے کا کام بھی اس کے حوالے کردیتی ہے اور یہ کسی طرح بھی مناسب نہیں ہے۔ یہ رویہ صرف ’’ن‘‘ کا نہیں ہے۔ اس کا نام تو صرف مثال کے طور پر لیا گیا ہے۔ اس قسم کی اور نہ جانے کتنی لڑکیاں ہیں جنہوں نے اپنے میکے کو آرام گھر سمجھ رکھا ہے جہاں وہ صرف اپنی تھکن اتارنے کیلئے جایا کرتی ہیں اور یہی خواتین اپنے میکے کی فضا میں تلخیاں گھولنے کی ذمہ دار ہوا کرتی ہیں اور ان کی وجہ سے رشتوں کے درمیان دراڑیں پڑنے لگتی ہیں۔ ایک طرف کسی لڑکی یا عورت کو یہ نہیں سمجھنا چاہیے کہ وہ اب اپنے گھر میں بالکل اجنبی بن گئی ہے۔ یعنی اپنے میکے میں جہاں اب اس کا کوئی عمل دخل نہیں ہے ایسی بات نہیں ہے۔ بلکہ اسے یہ سوچنا اور خیال کرنا چاہیے کہ اب اس کی ذمہ داریاں اس لحاظ سے بڑھ گئی ہیں کہ وہ دو خاندانوں کے درمیان تعلقات کو بحال اور خوشگوار رکھنے کیلئے ایک پل کاکام کررہی ہے۔ ایک وہ گھر جہاں وہ شادی سے پہلے رہا کرتی تھی‘ اور ایک وہ گھر جہاں وہ شادی کے بعد گئی ہے۔ یعنی اس کا میکا اور اس کا سسرال۔ یہ بات بھی بالکل درست ہے کہ کسی لڑکی کا رشتہ اس کے اپنے میکے والوں سے بہت مضبوط ہوتا ہے۔ اس کے ماں باپ‘ بھائی بہن‘ بھابیاں‘ عزیز‘ رشتہ دار‘ کزن وغیرہ اس کے اردگرد ہوا کرتے ہیں۔ وہ ان پر اپنا حق سمجھا کرتی ہے۔ لیکن شادی کے بعد صورتحال میں واضح تبدیلی آجاتی ہے۔ جس طرح کوئی لڑکی اپنے شوہر کے گھر کی مالکہ ہوا کرتی ہے اسی طرح اب اس کی بھابھی اس کے بھائی کے گھر کی مالکہ ہے۔ یہ ایسی بات ہے جس کو ہر لڑکی کو سمجھ لینا چاہیے اور اس حقیقت کو سمجھ لینے کے بعد اسے بہت خوش دلی کے ساتھ قبول بھی کرلینا چاہیے کیونکہ اس میں عقلمندی اور بھلائی ہے۔ یہ ایک ایسا راز ہے جس کو حل کرنے کیلئے کسی مہارت کی ضرورت نہیں ہے۔ ’’ن‘‘ کے برعکس ایک دوسری لڑکی ہے’’ق‘‘ وہ بہت دنوں کے بعد میکے جایا کرتی ہے اور جب بھی جاتی ہے اس کا استقبال اس کی بھابھی بہت ہی گرم جوشی اور کھلے دل کے ساتھ کرتی ہیں۔ اس لیے کہ اس کی فطرت اور عادت ’’ن‘‘ سے بالکل برعکس ہے۔ (کرن سلطانہ)
اہل خانہ کو خوش رکھنا سیکھئے
ایک کامیاب گھر مرد اور عورت دونوں کی کوششوں کا نتیجہ ہوتا ہے کیونکہ یہی وہ بنیادی ستون ہیں جن پر گھر کی عمارت کھڑی ہوتی ہے۔ خدانخواستہ ان دونوں میں سے کوئی ایک بھی اپنا کردار ادا کرنا چھوڑ دے تو عمارت کے قائم رہنے کے امکانات ختم ہوکر رہ جاتے ہیں۔ لہٰذا دونوں کا اپنے فرائض اور ذمہ داریوں کے معاملے میں احساس ہونا ازحد ضروری ہے۔ آئیے! ہم آپ کو چند تجاویز بتاتے ہیں جن پر عمل پیرا ہوکر میاں بیوی ایک کامیاب گھر تشکیل دے سکتے ہیں۔ تحمل و برداشت سے کام لینا: شادی شدہ زندگی میں سب سے پہلے جس چیز سے انسان کا واسطہ پڑتا ہے وہ یہی دو الفاظ ہیں۔ مرد ہو یا عورت دونوں کو ایسی بہت ساری چیزوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے جو ان کے مزاج کے برعکس ہوتی ہیں لہٰذا خود میں تحمل و برداشت کا مادہ پیدا کیجئے کیونکہ آپ خلاف مزاج بات پر جس قدر زیادہ غصے کا اظہار کریں گے معاملات اسی قدر پیچیدہ ہوتے چلے جائیں گے۔ یہ بات ذہن میں رکھیں کہ اگر آپ کو گھر بچانا ہے تو تحمل اور برداشت سے کام لینا پڑے گا خواہ یہ معاملہ گھر کے کسی فرد سے ہی متعلق کیوں نہ ہو؟ پیار و محبت سے بات منوائیں: بعض مردوں اور بعض خواتین کی یہ عادت ہوتی ہے کہ وہ ہر کام میں حکم چلانا اپنا فرض سمجھتے ہیں۔ اگر آپ میں بھی اسی طرح کی کوئی عادت ہے تو یقین کیجئے کہ اس کے نقصانات کا آج نہیں تو کل آپ کو سامنا کرنا پڑے گا لہٰذا اس عادت سے فوری چھٹکارا حاصل کریں۔ یادرکھیں! عام حالات میں پیار کی زبان سب سے زیادہ اثرانگیز ہوتی ہے۔ معذرت کرنے میں پہل کریں: انسان خطاکار ہے اور میاں بیوی بھی انسان ہی ہیں جو اگر کسی معاملے میں الجھ جائیں اور بات ناراضگی تک پہنچ جائے تو غلطی پر معذرت کرنے کو اپنی تحقیر نہ جانیں‘ معذرت کرنے سے کبھی دوسرے فرد کی نظر میں آپ کی عزت کم نہیں ہوتی بلکہ اس میں اضافہ ہی ہوتا ہے اور اگر بغیر قصور کے بھی آپ صلح میں پہل کرتی ہیں تو یہ بھی آپ کے بڑے پن کا ثبوت ہے اور ایسی بات نہیں کہ گھر کا کوئی مرد آپ کے اس بڑے پن کو محسوس نہ کرے یا نظرانداز کرجائے۔ تھوڑے میں خوش رہیں: خوب سے خوب تر کی تلاش نے آج کے انسان کا سکون چھین لیا ہے۔ اکثر گھرانے اسی وجہ سے ٹوٹ پھوٹ جاتے ہیں کہ وہ قناعت پسند نہیں ہوتے۔ قدرت نے آپ کو جس قدر نوازا ہے اسی سے خوش اور مطمئن رہنے کی کوشش کریں۔ سب کو وقت دیں: کاروبار زندگی چلانے کیلئے یہ نہیں ہو کہ آپ صرف کاروبار یا دفتر کے ہو کر رہ جائیں گھر کے دیگر افراد بھی آپ کی محبت، توجہ اور وقت کے طالب ہوتے ہیں لہٰذا بچوں، بڑوں اور بزرگوں سب کو جتنا ہوسکے وقت دیں۔ ان کے دکھ سکھ بانٹیں اور ان کی خوشیوں میں شریک ہوں۔ (مہرین فاطمہ)
حضرت حکیم محمد طارق محمود مجذوبی چغتائی (دامت برکاتہم) فاضل طب و جراحت ہیں اور پاکستان کونسل سے رجسٹرڈ پریکٹیشنز ہیں۔حضرت (دامت برکاتہم) ماہنامہ عبقری کے ایڈیٹر اور طب نبوی اور جدید سائنس‘ روحانیت‘ صوفی ازم پر تقریباً 250 سے زائد کتابوں کے محقق اور مصنف ہیں۔ ان کی کتب اور تالیفات کا ترجمہ کئی زبانوں میں ہوچکا ہے۔ حضرت (دامت برکاتہم) آقا سرور کونین ﷺ کی پُرامن شریعت اور مسنون اعمال سے مزین، راحت والی زندگی کا پیغام اُمت کو دے رہے ہیں۔ مزید پڑھیں